Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

بہلتی جائے گی سرکش محبت‘ دیکھتے جاؤ

تمہیں دنیا سکھا دے گی سیاست‘ دیکھتے جاؤ

بڑے اونچے سروں میں بات کرتے ہو محبت کی

محبت ہے خساروں کی تجارت‘ دیکھتے جاؤ

طغرل چلا گیا تھا۔ تیز چلتی ہوا کے جھونکوں سے کمرے میں پڑے بھاری پردے لہرا رہے تھے۔

دھک… دھک… دھک… دل کی دھڑکنیں تھیں کہ سینے سے باہر نکلنے کو بے چین تھیں  کئی لمحوں تک وہ گہرے گہرے سانس لے کر اپنے حواسوں کو درست کرتی رہی تھی پھر اس نے سوچا طغرل کے پیچھے جائے تاکہ معلوم ہو وہ کوئی بلا ہے یا…؟

اگلے لمحے وہ سورتوں کا ورد کرتی ہوئی کمرے سے نکل آئی۔
لان میں اندھیرا تھا اور طغرل کا دور دور تک پتا نہیں تھا۔ وہ سراسیمہ سی کھڑی سوچ رہی تھی کہ آگے جائے یا واپس اندر چلی جائے تبھی اس نے گیٹ کی طرف طغرل کو آتے دیکھا جو سیاہ چادر میں لپٹے کسی وجود کو گھسیٹتے ہوئے لا رہا تھا اور وہ ہکا بکا سی کھڑکی اس صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ وہ دونوں قریب آ گئے تھے اور دبی دبی گھٹی گھٹی  گھبرائی ہوئی آواز سن کر اسے اپنے پیروں تلے سے زمین کھسکتی ہوئی محسوس ہونے لگی۔
(جاری ہے)

”چھوڑیں مجھے…!“ وہ طغرل کی مضبوط گرفت سے اپنا ہاتھ چھڑانے کی بھرپور کوشش کر رہی تھی مگر طغرل اسے گھسیٹتا ہوا ان کے کمرے کی طرف لے آیا پیچھے حواس باختہ سی پری بھی آ رہی تھی۔ وہ عائزہ اور عادلہ کا مشترکہ کمرہ تھا جو ہاتھ کے معمولی دباؤ سے کھل گیا تھا۔ ان لوگوں کے پیچھے پری بھی اندر چلی آئی۔ عادلہ جو ابھی غنودگی میں تھی  اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا تھا اور غیر متوقع طور پر ان کو وہاں دیکھ کر گھبرا کر اٹھ کر کھڑی ہو گئی تھی۔
طغرل نے ایک جھٹکے سے عائزہ کا بازو چھوڑا تو وہ مارے دہشت و خوف کے وہیں کارپٹ پر مٹی کے ڈھیر کی طرح بیٹھتی چلی گئی۔

”کیا ہوا  آپ لوگ اس وقت یہاں اور… اور یہ عائزہ کو کیا ہوا ہے؟“ اس کی نظریں اس وقت طغرل پر اٹھی تھیں اور اس کے چہرے پر اتنی وحشت تھی گویا اس کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے ہوں  عادلہ نے گھبرا کر نگاہیں جھکا لی تھیں۔

”عائزہ! تم اس ٹائم… اس طرح کہاں گئی تھیں…؟“ اس نے اس کے قریب بیٹھتے ہوئے پوچھا۔

###

ماہ رخ کالج کے قریب پہنچی ہی تھی کہ اس کی نگاہ اعوان پر پڑی تھی جو نیم کے درخت کے نیچے کار لئے کھڑا تھا۔ ماہ رخ سے نگاہ ملتے ہی وہ مسکرایا اور ہاتھ کے اشارے سے اسے قریب آنے کا اشارہ کیا۔

”ارے آپ اس ٹائم یہاں…؟“ وہ اس کے قریب جاکر حیرانی سے گویا ہوئی۔

”آج کلاسز بنک کر لو۔“ وہ بے قراری سے بولا۔

”کیوں؟“ وہ سخت حیران و پریشان ہوئی۔

”دل چاہ رہا ہے آج ہم اور تم سمندر کی لہروں کو اپنے پاؤں سے چھوئیں۔ ٹھنڈی ریت کے گھروندے بنائیں  اپنے نام لکھیں…“

”ارے بابا! بس… بس! بس آپ کا کیا شاعری کرنے کا ارادہ ہے؟“ وہ اس کی بات قطع کرکے ہنس کر بولی۔

”شاعر ہوں تو نہیں  لگتا تم بنا دو گی۔
رخ! پلیز… آؤ ناں!“ ماہ رخ نے اس کی طرف دیکھا تھا۔ اس کے چہرے پر محبت ہی محبت تھی۔ دوسرے لمحے وہ بہت اعتماد کے ساتھ اگلی نشست پر بیٹھ گئی تھی۔ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے ہوئے اعوان نے اس کی طرف بھرپور نظروں سے دیکھا۔

”تھینکس آلاٹ مائی ڈیئر!“

وہ مسکرا دی تھی۔ کار تیزی سے سیاہ سڑک پر فراٹے بھر رہی تھی  ساتھ ماہ رخ کے دل کی بے ہنگم ہوتی دھڑکنوں کو قرار نہ تھا۔
خوشی مسکراہٹ بن کر اس کے ہونٹوں پر چمک رہی تھی۔ اس مسکراہٹ پر وہ دل و جان سے نثار ہو رہا تھا۔ کار پارکنگ سے باہر آتے ہوئے ماہ رخ نے بغور لمحے بھر کو اس کی طرف دیکھا تھا گویا اس کے جذبوں کی صداقت جانچ رہی ہو اور اس وقت اس چہرے پر صداقت ہی صداقت تھی۔

”ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟“ وہ اس کا ہاتھ تھام کر اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے استفسار کرنے لگا۔
”کیا میری بات پر یقین نہیں ہے یا میری محبت پر شک ہے تمہیں رخ!“

”آپ کو اپنے جذبوں پر یقین ہے اعوان!“

”ہاں! زندگی کی طرح یقین ہے  ان آتی جاتی سانسوں کی طرح یقین ہے۔“

”اعوان! مجھے محسوس ہوتا ہے میں آپ سے جدا کر دی جاؤں گی۔“ آپ سے مل نہیں پاؤں گی۔“ وہ اس کا سہارا لے کر ان بڑے بڑے پتھروں سے اتر رہی تھی جن کو عبور کرکے سمندر تک جایا جاتا تھا۔

”اس کا مطلب ہے تم کو مجھ سے محبت ہے کیونکہ جہاں محبت ہوتی ہے وہیں وسوسے بھی جنم لیتے ہیں  بچھڑنے کا خوف بھی ہوتا ہے۔“ ٹھنڈی بھیگی بھیگی ریت پر پاؤں پڑتے ہی اس کے حواس ایک خوشگوار کیفیت سے دوچار ہونے لگے تھے پھر اعوان کا کھلم کھلا اظہار محبت اور وارفتگی نے اس کو مسرتوں سے ہمکنار کر دیا تھا۔ ”بولو نہ رخ! تمہیں مجھ سے محبت نہیں ہے؟“ اس کو خاموش پا کر وہ سنجیدگی سے گویا ہوا۔

”خوش ہوں میں بہت اعوان! بلکہ بہت محبت کرتی ہوں آپ سے۔“

”اوہ! تھینک یو سو مچ۔ تم نے مجھے زندگی دی ہے۔“

###

پری کی بات کا اس نے کوئی جواب نہیں دیا  وہ اسی طرح چہرا جھکائے بیٹھی کارپٹ کو گھورتی رہی تھی۔

”طغرل بھائی! آپ بتائیں ہوا کیا ہے؟“ عادلہ اس کو خاموش دیکھ کر طغرل سے مخاطب ہوئی تھی  جس کا غصہ و خشونت ابھی بھی کم نہ ہوئی تھی۔
وہ مضبوطی سے ہونٹ بھینچے کچھ سوچ رہا تھا۔ صباحت پانی پینے اٹھی تھیں  ان کے کمرے کا دروازہ اور لائٹ آن دیکھ کر وہ اسی طرح چلی آئی تھیں اور اندر کی صورت حال دیکھ کر وہ حیران و پریشان رہ گئی تھیں۔ وہ بھاگ کر عائزہ کی طرف آئی تھیں۔

”کیا ہو رہا ہے یہاں…؟“ وہ پریشانی سے پری اور طغرل کو دیکھ رہی تھیں۔

”آنٹی… یہ گھر چھوڑ کر جا رہی تھی۔
“ طغرل کی سنجیدگی سے کہی گئی بات نے گویا بہت بڑا دھماکہ کیا تھا کمرے میں… وہ تینوں دہل کر رہ گئی تھیں۔ صباحت جو دونوں ہاتھوں سے عائزہ کو تھامنا چاہتی تھیں وہ اس انداز میں اس سے دور ہوئی تھیں گویا کرنٹ چھو گیا ہو۔

”یہ… یہ کیا کہہ رہے ہو طغرل بیٹے! یہ کیوں گھر چھوڑ کر جا رہی تھی؟ کیا دکھ ملا ہے اس کو اس گھر میں…؟ چند گھنٹوں قبل تو یہ اپنے سسرال والوں کے ساتھ بڑی خوش بیٹھی تھی  بہت مطمئن تھی یہ…“ اتنا بڑا دھچکا! اتنی بڑی ذلت ان کو اس بیٹی نے دی تھی جس سے وہ بے انتہا محبت کرتی تھیں اور رسوائی ملی بھی تو کن لوگوں کے سامنے جن کی پرچھائیوں سے بھی وہ یہ بات چھپانا پسند کرتیں۔
”عائزہ! یہ کیا کر رہی تھیں تم! کیا کرنے جا رہی تھیں  تمہیں احساس ہے اس بات کا… کہاں جا رہی تھیں تم اور کس کے ساتھ…؟ اوہ! میرا سر…!“ وہ سر پکڑ کر بیٹھتی چلی گئیں۔

”مما… مما!“ پری اور عادلہ ان کی طرف بڑھی تھیں۔ عادلہ ڈری سہمی سی ان کو دیکھ رہی تھی۔ طغرل نے آگے بڑھ کر ان کو دور کیا تھا۔

”آنٹی! آپ یہاں بیٹھیں پلیز!“ اس نے ان کا ہاتھ پکڑ کر بیڈ پر بٹھایا۔

”میرے دل کو کچھ ہو رہا ہے۔ طغرل بیٹے! مجھے کچھ ہو رہا ہے۔“ وہ سر کو تکیے پر دائیں بائیں پٹخنے لگی تھیں۔ پری بھاگ کر پانی لے آئی جو طغرل نے انہیں پلایا۔ عادلہ فق چہرہ لئے گم صم کھڑی تھی۔

”آنٹی خود کو سنبھالئے  حوصلہ کیجئے۔ اگر انکل یہاں آ گئے تو کیا بتائیں گے ان کو؟ پلیز! خود کو سنبھالئے۔“ طغرل نے بڑھ کر ان کو سمجھایا۔

”بیٹا! اس نے ایسا کیوں کیا؟ اگر یہ اس طرح چلی جاتی تو ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہتے۔“

”یہ آپ ان سے ہی پوچھئے گا آنٹی! فی الحال تو اجازت دیجئے رات گہری ہو رہی ہے اور مجھے خدشہ ہے کہ خدانخواستہ انکل یا دادو اگر یہاں آ گئیں تو پھر معاملہ سنبھالنے میں دشواری ہو گی۔“

”بہت اچھے بیٹے ہو آپ طغرل! آج آپ نے ہمیں رسوائی سے بچا لیا۔

”آپ آرام کریں آنٹی!“ وہ کہہ کر کمرے سے نکل گیا تھا۔ پری جو وہاں کھڑی تھی اور چاہ رہی تھی عائزہ سے معلوم کرے اس نے یہ غیر ذمے دارانہ حرکت کیوں کی… کیا ضرورت پڑی تھی اس کو ایسی گھٹیا حرکت کرنے کی کہ وہ تو اپنی منگنی سے بے حد خوش تھی۔ اس کے ہاتھوں میں کہنیوں تک لگی مہندی کا رنگ خوب کھل رہا تھا۔ چہرے پر میک اپ ابھی موجود تھا شاید ازسر نو اس کو تازہ کیا گیا تھا فیروزی فینسی سوٹ اور گولڈ کی جیولری میں اس کی خوبصورتی نمایاں تھی۔
ابھی وہ اس سے کچھ پوچھنے کا ارادہ کر رہی تھی کہ اس کو احساس ہوا کہ وہ ان سب کی سرد نگاہوں کی زد میں ہے۔

”پری! سوؤ جا کر  اگر اماں جان جاگ گئیں تو مسئلہ ہو جائے گا  وہ تمہیں ڈھونڈتی ہوئی یہاں آ گئیں تو…؟“ عادلہ نے سخت لہجے میں کہا۔ وہ گویا ایک خواب کی سی کیفیت سے جاگی تھی۔ ”سنو!“ اس کو جاتے دیکھ کر صباحت غرائی  وہ ٹھٹک کر رک گئی۔

”جو یہاں ہوا اور جو تم نے دیکھا  ان سب کو ڈراؤنے خواب کی طرح بھلا دو۔ خبر دار  جو کبھی بھولے سے بھی فیاض یا اماں جان کو بتانے کی سعی کی تو۔ تمہارا وہ حال کروں گی کہ خود کو نہیں پہچان پاؤ گی  جاؤ یہاں سے…“ وہ لہجہ جو ابھی طغرل کے آگے شہد آ گیں  تھا  اب نفرت کے زہر میں بجھا ہوا تھا۔ وہ سیدھی نکلی چلی آئی تھی۔

”پری!“ وہ کوریڈور سے گزری تو طغرل کی آواز آئی  وہ رک گئی بولی کچھ نہیں۔
”مجھے اس بات پر یقین ہے کہ تم انکل اور دادی جان کو ہرگز کچھ نہیں بتاؤ گی۔“ وہ ستون کی آڑ سے نکل کر اس کے سامنے آ گیا تھا۔ ”ایک گزارش ہے  عائزہ کی نقل و حرکت پر نظر رکھنا کہ وہ دو بار یہ ذلیل حرکت کر چکی ہے اور بعید نہیں ہے کہ پھر موقع مل جائے اس کو۔“

###

پری کے کمرے سے نکلتے ہی عادلہ نے گیٹ لاک کیا  صباحت بیڈ سے اٹھ کر عائزہ کے پاس پہنچ گئی تھیں جب کہ عائزہ کے چہرے پر پھیلا خوف غائب ہو گیا تھا اور اب اس کے چہرے پر ہٹ دھرمی و بے پروائی پھیل گئی تھی۔

”تم باز نہیں آئیں نا! تمہیں منع کیا اس کے باوجود بھی تم نے اپنی من مانی کرنی چاہی اور دیکھ لیا انجام؟“ وہ اس کے قریب جا کر غصے سے گویا ہوئی۔ ”خود تو رسوا ہوئی ہو ساتھ ہمارے چہروں پربھی سیاہی مل دی ہے تم نے۔“

”میں نے آپ سے صبح تک کہا تھا کہ میں اس سے شادی نہیں کروں گی۔ میں راحیل کو پسند کرتی ہوں اور شادی بھی اسی سے کروں گی لیکن آپ صرف اپنی منوانا جانتی ہیں تو میں نے بھی سوچ لیا  جب آپ کو میری پروا نہیں تو میں کیوں آپ کی پروا کروں۔

”راحیل… ہونہہ  دنیا بھر کا نکما اور ہڈ حرام جو اپنے لئے کچھ نہ کر سکا وہ تمہارے لئے کیا کرے گا  یہ سوچا ہے کبھی تم نے؟“

”میں اس سے محبت کرتی ہوں  وہ بھی مجھے دل کی گہرائیوں سے چاہتا ہے۔ ابھی بھی وقت ہے  سوچ لیں مما! میں صرف راحیل کی ہوں۔“

”بکواس مت کرو عائزہ! اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تم اس حد تک جاؤ گی تو میں کبھی بھی یہ رسک نہیں لیتی مگر بات اب عزت پر آ گئی ہے۔
یہاں تمہیں سب بھولنا پڑے گا  اپنی ماں کی زندگی اور عزت کی خاطر ورنہ میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہوں گی۔“ صباحت نے بیٹی کے آگے ہاتھ جوڑ دیئے تھے۔

”سوری مما! میں راحیل کو نہ چھوڑ سکتی نہ بھول سکتی ہوں۔“ عادلہ جو اس دوران بالکل خاموش کھڑی تھی  عائزہ کی ہٹ دھرمی دیکھ کر کرخت لہجے میں بولی۔

”اوہ! تو یہ تھا تمہاری خوشیوں کا راز  میں بھی یہی سوچ رہی تھی کہ بڑی جلدی راحیل کو بھول گئی ہو جو ہر بات مان رہی ہو۔

”تم مت بولو ہمارے بیچ میں  میری اور مما کی بات ہو رہی ہے۔“ عائزہ نے جھلا کر کہا۔

”کیوں نہ بولوں؟ کل تک تو بہت اقرار کر رہی تھیں تم کہ ممانی نے تمہیں اپنے سب سے ہونہار بیٹے کیلئے پسند کیا ہے  مجھے پوچھا تک نہیں اور یہ بھی کہ مجھے اپنے رشتے کیلئے پاپڑ بیلنے پڑیں گے  کوئی مجھے پوچھے گا بھی نہیں…“ عادلہ جو اس کی لگائی گئی لفظوں کی مار سے گھائل تھی۔
اس وقت اس کو بڑا اچھا موقع ملا تھا اپنا بدلہ لینے کا تو جتانے میں دیر نہ لگائی۔

”ہاں ہاں تو! میں نے کون سا غلط کیا تھا… جو پہلے کہا تھا وہ اب بھی کہتی ہوں۔“

”ارے کیسی بیٹیاں ہو تم لوگ… عائزہ! اتنی گری ہوئی حرکت کرنے کے بعد بھی تم اس طرح عادلہ سے بات کر رہی ہو۔ جیسے بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔ اگر تم میں ذرا بھی شرم ہوتی تو تم شرم سے گردن نہ اٹھا سکتی تھیں۔
“ صباحت آہستگی سے اس سے مخاطب ہوئی تھی۔

”میں کیوں شرمندہ ہوں مما! یہ آپ کی ضد کی وجہ سے ہوا ہے اور میں نے تو بہت پہلے ہی یہاں سے جانے کا پروگرام بنا لیا تھا۔ میں یہاں سے نکل بھی گئی تھی مگر وہ طغرل بھائی… اف!“ اس نے دانت بھنیچتے ہوئے اپنی ہتھیلی پر مکا مارا۔ ”ان کو تو جیسے راتوں کو جاگنے کا شوق ہے  لان کی لائنیں بھی میں نے آف کر دی تھیں کہ کوئی اندھیرے اور سردی کے باعث کمروں سے نکلے گا نہ مجھے دیکھ سکے گا مگر وہ تو گویا راتوں کو چوکیداری کرتے ہیں یہاں کی… پہنچ گئے میرا پیچھا کرتے ہوئے اگر میں محسوس نہ کر لیتی تو اسی رات پکڑی جاتی۔
“ اپنے مقصد میں ناکامی کا دکھ اور اس پر صباحت کی سختی اور عادلہ کی طعنہ زنی عائزہ کو اس حد تک بے قابو کر چکی تھی کہ وہ شدید اشتعال میں وہ باتیں بھی بتاتی گئی جو عام حالت میں کبھی نہ بتاتی ان کو۔ ”میں گیٹ سے باہر نکل کر عقبی گلی میں چھپ گئی اور میری گھبراہٹ دیکھ کر راحیل خطرہ بھانپ گیا اور وہ کار دوڑاتا وہاں سے چلا گیا۔ جب طغرل بھائی اس سڑک تک پہنچے  وہ ان کی پہنچ سے بہت دور جا چکا تھا۔

”پھر تم کس طرح اندر آئیں  طغرل تمہیں کیوں دیکھ نہ سکا تھا؟“ صباحت کے حلق سے پھنسی پھنسی آواز نکلی تھیں  وہ دھندلی ہوتی نگاہوں سے عائزہ کو دیکھ رہی تھیں۔ جو اس وقت کسی زحمی ناگن کی طرح لگ رہی تھی۔

”عقبی گلی کا گیٹ میں احتیاطاً کھول کر جاتی تھی اور اس رات بھی یہی ہوا تھا۔ طغرل بھائی جب سڑک پر راحیل کی کار کے پیچھے بھاگے تھے اس وقت میں خاموشی سے عقبی گلی کا گیٹ کھول کر اندر آ گئی تھی اور ان کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے ہی اپنے کمرے میں آ چکی تھی مگر آج…“

”بے حیا! کتنے فخر سے اپنی بے غیرتی کے قصے سنا رہی ہے؟ کاش تو پیدا نہ ہوتی یا اسی دن مر جاتی۔“ صباحت نے ایک تھپڑ اس کے منہ پر مارا۔

   2
0 Comments